Showing posts with label Islamic Khatoot. Show all posts
Showing posts with label Islamic Khatoot. Show all posts

Friday, June 22, 2018

اللہ ھُو اللہ ھُو

مرکزِ جستجو عالم رنگ و بُو

دم بہ دم جلوہ گر تو ہی تو چار سُو

کیوں کے ماحول میں کچھ نہیں الا ھُو

تم بہت دلربا تم بہت خوبرو

عرش کی عظمتیں فرش کی آبرو

تم ہو کونین کا حاصلِ آرزو

آنکھ نے کر لیا آنسوؤں سے وضو

اب تو کر دو عطاء دید کا ایک سروع

آؤ پردے سے تم آنکھ کے روبرو

چند لمحے ملن دو گھڑی گفتگو

لاب جھپتا پھرے جا بہ جا کوہ بہ کوہ

وحدہ ھُو وحدہ ھُو لا شریک لا ھُو

اللہ ھُو اللہ ھُو
اللہ ھُو اللہ ھُو

Wednesday, April 4, 2018

کلمات ذکر کی حقیقت

کلمات ذکر کی حقیقت

سبحان الله ، والحمد للہ ، ولا اله الا اللہ ، والله اکبر ، ولاحول ولا قوه الا بالله - ان کلمات کے جو الفاظ ییں ، وه محض الفاظ نہیں ہیں ، بلکہ وه گہرے معانی کو بتا رہے ہیں اور یہ الفاظ اپنے انهیں گہرے معانی کے اعتبار سے مطلوب ہیں ، نہ کہ محض الفاظ کے اعتبار سے ، یعنی ان کا فائده محض ان کی لفظی تکرار میں نہیں ہے ، بلکہ ان کی اسپرٹ یا ان کی معنویت کو اپنانے میں ہے -

لا حول ولا قوه کیا ہے - وه اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اللہ تمام طاقتوں کا مالک ہے - سبحان اللہ کیا ہے سبحان اللہ اس حقیقت کی دریافت ہے کہ خدا ہر قسم کے عیب اور نقص سے کامل طور پر پاک ہے - الحمد للہ کیا ہے - الحمد للہ دراصل یہ ہے کہ ایک صاحب معرفت آدمی اللہ کے کمالات کو دریافت کر کے اس کا شعوری اعتراف کرے - لا اله الا الله کیا ہے - لا اله الا اللہ دراصل تمام معبودوں کو رد کر کے اللہ کو معبود حقیقی کے طور پر دریافت کرنے کا دوسرا نام ہے - الله اکبر کیا ہے - یہ وه عارفانہ کلمہ ہے جو ایک شخص کی زبان سے اس وقت بے تابانہ طور پر نکل پڑتا ہے ، جب کہ وه تدبر کے نتیجہ میں اللہ کے مقام عظمت کو دریافت کرے -

یہ کلمات دراصل ذکر الہی کے کلمات ہے - ذکر کی حقیقت معرفت ہے اور معرفت الہی بلاشبہہ سب سے بڑی نیکی ہے - لیکن معرفت کوئی ساده چیز نہیں - معرفت سے پہلے دریافت ہے - دریافت سے پہلے تدبر ، تدبر سے پہلے یکسوئی ہے ، یکسوئی سے پہلے سنجیدگی ہے - آدمی سب سے پہلے سنجیدگی کا ثبوت دیتا ہے ، پهر وه اپنے ذہن کو غیر متعلق چیزوں سے یکسو کرتا ہے ، اس کے بعد وه غور و فکر کرتا ہے ، جس کو تدبر کہا جاتا ہے - تدبر اس کو دریافت تک پہنچاتا ہے اور دریافت معرفت تک - سنجیده تفکر کے ان مراحل سے گزرنے کے بعد جب کسی انسان کو اللہ رب العالمین کی معرفت حاصل هوتی ہے تو اس کے ذہن میں ایک فکری بهونچال آتا ہے ، اس کے اندر حقیقت شناسی کا ایک سیلاب امنڈ پڑتا ہے - یہ ربانی کیفیت جب ایک انسان کی زبان سے بے تابانہ طور پر ظاہر هوتی ہے تو اسی کا نام ذکر الہی ہے -

یہ کلمات دراصل اس شعوری عمل کو بتاتے ہیں جو ایک صاحب ایمان کے اندر موجوده دنیا میں جاری هوتا ہے - موجوده دنیا میں زندگی گزارتے هوئے ایک صاحب ایمان پر مختلف احوال اور تجربات گزرتے ہیں - اگر اس کے اندر ایمانی شعور زنده هو تو یہ تمام احوال و تجربات اس کے لیے رزق رب کا ذریعہ بنتے رہیں گے - آخر کار وه اس مطلوب انسان کا درجہ حاصل کر لے گا جو آخرت مئں داخلے کے لیے ایک مستحق امیدوار کی حیثیت رکهتا ہے -

مسواک

مسواک

حضرت صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مسواک کے متعلق ایک سو سے زائد احادیث ﺫکر کی گئی ہیں، پر تعجب ہے ایسی سنت پر جس کے متعلق اتنی زیاده احادیث ہیں اور اکثر لوگ پھر بھی اس پر عمل نہیں کرتے۔
[البدر المنير ٤٠/١]

مسواک کا ادنٰی سے ادنٰی فائدہ یہ ہے کہ منہ کی بدبو ختم ہو جاتی ہے، اور علامہ شامی نے یہ بات لکھی ہے کہ مسواک کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ موت کے وقت کلمہ نصیب ہوتا ہے اس سے بڑی کامیابی ہمارے لئے کیا ہو سکتی ہے اللہ تعالٰی ہم تمام کو عمل کی توفیق عطا فرمائے،آمین

ہمارے پیارے نبی کریم صلعم نے ہمارے لئے کیا کچھ نہیں کیا، کیا ہم ہمارے نبی کے لئے اتنا بھی نہ کریں کہ ایک مسواک اپنے پاس رکھے جسے وضو یا نماز سے پہلے کر لیا کرے...!!! حالانکہ مسواک کے استعمال میں دنیوی فائدہ بھی ہے اور اخروی فائدہ بھی، اس کے با وجود ہمارا اس سنت پر عمل نہیں،

ہم دنیاوی معاملہ میں دوگنا نفع پسند کرتے ہیں تو دینی امور میں کیوں نہیں؟ ایک بار عمل کی کوشش تو کیجئیے، ان شاءاللہ تعالٰی آپ کو خود احساس ہوگا کہ مسواک کے کتنے فوائد ہیں_
{وما توفیقی الا باللہ}
نوٹ:- جیسے مردوں کے لئے مسواک سنت ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی سنت ہے
(امدادالفتاویٰ :1/63)
زیادہ سے زیادہ اس بات کو اپنے بھائیوں کو پہنچائے ہر نیک کام بنیک نیت صدقہ ہے،_

اصلاحی بات

اصلاحی بات )
اتباع سنت : قبولیت عمل کی لازمی شرط

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ان ضائع ہونے والے اعمال کی وجہ اور سبب لکھتے ہیں
عمل ضائع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں شرعی شرط موجود نہیں یا تو اخلاص نہیں یا وہ اللہ تعالٰی کی شریعت کے مطابق نہیں تو ہر وہ عمل جو خالص اللہ تعالٰی کے لئے نہ ہو اور پسندیدہ شریعت یعنی طریقۂ محمدیہ صلعم کے مطابق نہ ہو تو وہ باطل اور ضائع ہے۔
لہٰذا جو بھی عمل اخلاص سے خالی ہو یا نبی کریم صلعم کے طریقے کے مطابق نہ ہو تو وہ عمل اور عبادت ضائع ہے_

پس ثابت ہوا کہ جب تک عبادت میں دونوں شرطیں عبادت میں موجود نہیں ہوگی یا دونوں میں سے ایک شرط موجود ہے لیکن دوسری موجود نہیں تو بھی عمل کی قبولیت نہیں ہوگی_
اعمال اور عبادات کی قبولیت کے لئے اخلاص بھی ضروری ہے اور نبی صلعم کے طریقہ کے مطابق ہونا بھی ضروری ہے_

نوٹ:- دنیا کی ادنٰی سے ادنٰی اور معمولی قیمت والی چیز میں بھی ہم کسی کو شریک کرنا پسند نہیں کرتے ہیں ہم کوئی چیز خریدتے ہیں تو اوریجنل(original) لینا پسند کرتے ہیں، ڈپلیکیٹ(Duplicate) کو نا پسند کرتے ہیں
تو ہم محتاج غلام ہوکر بھی عمدہ چیز لینا پسند کرتے ہیں تو اللہ تعالٰی تو بادشاہوں کا بادشاہ ہے وہ کیسے ملاوٹ والی اور ڈپلیکیٹ چیز(عبادت)لینا پسند کرے...!

اصلاحی بات

اصلاحی بات
اتباع سنت : قبولیت عمل کی لازمی شرط

ارشاد ربانی ہے(وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ) میں نے جنات اور انسان کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں_
اللہ تعالٰی کی عبادت کے لئے ضروری ہے کہ وہ شرعی اصولوں کے مطابق کی جائے ورنہ عبادت شرف قبولیت کے اعزاز سے محروم رہے گی۔
عبادت کی قبولیت کے لئے سب سےپہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ اخلاص والی ہو یعنی اس میں شرک، ریاکاری، دکھلاوا، نمود و نمائش کی ملاوٹ نہ ہو، خالص اللہ تعالٰی کی رضا مقصود ہو
عبادت کی قبولیت کے لئے دوسری اور اہم ترین شرط یہ ہے کہ وہ عبادت ہمارے پیارے نبی کریم صلعم کے طریقہ کے مطابق ہو(سنت کے مطابق)
ارشاد ربانی ہے :- پس جس کو اپنے رب سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیئے کہ وہ نیک اعمال کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے_

اصلاحی بات

اصلاحی بات
عجب اور تکبر کا فرق اور انکی تعریف

انسان کا اپنی کسی صفت پر اس طرح نگاہ کرنا کہ بجائے عطاء حق سمجھنے کے اس کو اپنا ذاتی کمال سمجھے، جس کا لازمی اثر یہ ہوتا ہے کہ منہ سے بجائے شکر نکلنے کے میں ایسا ہوں میں ویسا ہوں نکلتا ہے کیونکہ عطاء حق کا اسے استحضار نہیں رہتا، اور دل ہی دل میں اپنے کو اچھا سمجھتا ہے_

تکبر
اپنے کو بڑا سمجھے کسی کے مقابلے میں پس تکبر میں دوسرے کی تحقیر بھی لازم آتی ہے، اور عجب میں دوسروں کی تحقیر لازم نہیں آتی_
دونوں ہی مہلک ہے_

اصلاحی بات

اصلاحی بات

ایک بزرگ راستہ سے گزر رہے تھے کہ ایک متکبر کے بدن کو ان کے جسم سے کچھ دھکا لگ گیا کیونکہ زیادہ عمر کے سبب بینائی کمزور ہو گئی تھی اس متکبر نے اکڑ کر کہا کہ او اندھے! تجھے سجھائی نہیں دیتا، تو نہیں جانتا کہ میں کون ہوں،؟
اس بزرگ نے ارشاد فرمایا کہ میں خوب
جانتا ہوں کہ تو کون ہے،
اگر تو کہے تو میں تجھے بھی بتا سکتا ہوں۔ اس نے کہا اچھا بتائیے،
ارشاد فرمایا کہ ہر زندگی تین زمانے پر مشتمل ہوتی ہے، ماضی، حال، مستقبل میں تیرے تینوں زمانے بتائے دیتا ہوں،
ماضی میں تو باپ کے ناپاک نطفہ اور ماں کا خونِ حیض تھا،
حال میں تیرے پیٹ کے اندر پاخانہ اور پیشاب بھرا ہے،
اور مستقبل میں تو قبرستان میں سڑی ہوئی لاش ہوگا،
عجب اور تکبر بیوقوفوں کو بہت ہوتا ہے ورنہ ذرا بھی عقل سے کام لیا جائے تو سمجھ میں آجاوےگا کہ انسان کو تکبر کبھی زیبا نہیں_
حدیث قدسی میں ہے کہ حق تعالٰی فرماتے ہیں برائی میری چادر ہے جو اس میں گھسےگا میں اس کی گردن توڑ دوں گا_